قحط
سالی،مہنگائی،بدامنی کے اسباب
از قلم: محمدداؤدالرحمن علی
حالات کی
وجہ؟
ان حالات
کے اسباب قرآن کی نظرمیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’مَنْ عَمِلَ صَالِحاً
مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً
طَیِّبَۃً‘‘۔ (النحل:۹۷)
’’جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ
صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نیک اور پرسکون زندگی کے راز کو ایمان
اور اعمال صالحہ میں رکھا ہے۔ یعنی اعمال صالحہ کروگے تو عمدہ زندگی ملے گی ورنہ
نہیں۔
سورۃ طہ میں فرمایا کہ اگر
تم نے میرے احکامات سے منہ موڑا میں تمہاری دنیا و آخرت کی زندگی تنگ کردوں گا۔
’’وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ
ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
أَعْمیٰ۔‘‘ (طہ:۱۲۴)
’اور جو شخص میرے ذکر (نصیحت) سے اعراض کرے گا تو اس کے
لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔‘‘
اس آیت میں واضح کیا جارہاہے کہ مال و دولت ہو،عزت و شہرت ہو لیکن اگر تم
نے اپنے رب کی اطاعت سے منہ موڑا تو ظاہری اسباب ہنے کے باوجود تماہرے دلوں کو
سکون میسر نہ ہوگا۔اگر دلی سکون چاہتے ہوتو احکامات خداوندی پر عمل کرو۔
سورۃ شوریٰ میں ایک اور سبب
بتلایا کہ سب تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
’’وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ
مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ‘‘۔
(الشوریٰ:۳۰)
’’اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی
ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اﷲ تعالیٰ)
درگزر کردیتا ہے‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مصیبت جو ہمیں آتی ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ
ہے۔اگر ان آیات پر غور کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ
’’ نافرمانی سببِ پریشانی
اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے‘‘۔
ان حالات کے اسباب حدیث کی نظرمیں:۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ،
حَدَّثَنَا أبِیْ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ:
سَمِعْتُ وَہْبًا یَقُوْلُ: إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَالَ فِي بَعْضِ
مَا یَقُوْلُ لِبَنِیْ إِسْرَائِیلَ: إِنِّيْ إِذَا اُطِعْتُ رَضِیْتُ، وَإِذَا
رَضِیْتُ بَارَکْتُ، وَلَیْسَ لِبَرَکَتِيْ نِہَایَۃٌ، وَإِنِّيْ إِذَا عُصِیْتُ
غَضِبْتُ، وَإِذَا غَضِبْتُ لَعَنْتُ، وَلَعْنَتِيْ تَبْلُغُ السَّابِعَ مِنَ
الْوَلَدِ۔‘‘ (کتاب الزہد لاحمد بن حنبل، رقم الحدیث: ۲۸۹)
’’امام احمد ؒ نے وہب ؒ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
بنی اسرائیل سے فرمایا: جب میری اطاعت کی جاتی ہے تو میں راضی ہوتا ہوں، اور جب
میں راضی ہوتا ہوں تو برکت عطا کرتا ہوں، اور میری برکت کی کوئی انتہا نہیں، اور
جب میری نافرمانی کی جاتی ہے، تو میں غضب ناک ہوتا ہوں، تو میں لعنت کرتا ہوں، اور
میری لعنت کا اثر سات پشتوں تک رہتا ہے۔
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ
عُمَرؓ، قَالَ: اَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ
الْمُـہَاجِرِیْنَ! خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ، وَاَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ
تُدْرِکُوْہُنَّ، لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ، حَتّٰی یُعْلِنُوْا
بِہَا إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ، الَّتِيْ لَمْ تَکُنْ
مَضَتْ فِيْ اَسْلَافِہِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوْا الْمِکْیَالَ
وَالْمِـیْزَانَ، إِلَّا اُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ، وَشِدَّۃِ الْمَـئُوْنَۃِ،
وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوْا زَکَاۃَ اَمْوَالِہِمْ
إِلَّا مُنِعُوْا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ
یُمْطَرُوْا، وَلَمْ یَنْقُضُوْا عَہْدَ اللہِ، وَعَہْدَ رَسُوْلِہٖ إِلَّا
سَلَّطَ اللہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ، فَاَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ
اَیْدِیْہِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ اَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللہِ،
وَیَتَخَیَّرُوْا مِمَّا اَنْزَلَ اللہُ إِلَّا جَعَلَ اللہُ بَاْسَہُمْ
بَیْنَہُمْ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۴۰۱۹)
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ
باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے
کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں: پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ
فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں
پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔ دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول
میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ظلم و
زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے
ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے
تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے
رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں
سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔
پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور
اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور
اختلاف ڈال دیتا ہے۔ ‘‘
’’لا یَزِیْدُ فِیْ
الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَلَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَإِنَّ
الرَّجُلَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصِیْبُہُ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، رقم
الحدیث: ۴۰۲۲)
ترجمہ: ’’نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے
علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق
سے محروم ہو جاتا ہے۔ ‘‘
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
’’قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی
اللہ علیہ وسلم : وَلَا مَنَعُوْا الزَّکَاۃَ إِلَّا حُبِسَ عَنْہُمُ الْقَطْرُ۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: ۱۰۹۹۲)
’’نہیں روکا کسی قوم نے زکوٰۃ کو، مگر روک لیا اللہ
تعالیٰ نے ان سے بارش کو۔‘‘
ان اسباب
کا شرعی حل:۔
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا
رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا
وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ
لَّکُمْ أَنْہَارًا۔‘‘ (النوح: ۱۰
-۱۲)
’’ اور (اس سمجھانے میں ) میں نے (ان سے یہ ) کہا کہ تم
اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ، بیشک وہ بڑابخشنے والا ہے، تم پر آسمان سے خوب
بارشیں برسائے گا، اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا
کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘
’’وَ یٰقَوْمِ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ
عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً إِلٰی قُوَّتِکُمْ
وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ‘‘۔ (ہود:۵۲)
’’اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ
اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر
تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو‘‘۔
’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ
یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ‘‘۔ (الطلاق:۲،۳)
’’اور جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے
نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان
بھی نہیں ہوتا‘‘۔
’’ وَضَرَبَ اللّٰہُ
مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ أٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا
مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بأَنْعُمِ اللّٰہِ فَأَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ
الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ‘‘۔(النحل: ۱۱۲)
’’اور بتائی اﷲ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے،
چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اﷲ کی نعمتوں کی، پھرمزہ
چکھایا اس کو اﷲ نے بھوک اور خوف کے لباس کا‘‘۔
Post a Comment
Post a Comment