اپریل فول
محمدداؤدالرحمن علی
ہمارے معاشرہ میں یہود ونصاریٰ کی جو رسومات رائج ہوتی چلی جارہی ہیں، اُن میں سے ایک رسم ”اپریل فول“ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کو جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہےبلکہ اسے ایک عظیم کمال تصور کیا جاتا ہے۔ جو شخص جتنی صفائی اور چالاکی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے ، اُتنا ہی اُس کو ذہین، قابلِ تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر اعتبار سے خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور انتہائی شرمناک اورعقل ونقل کے بھی خلاف ہے۔
اس رسم بد کی دو حیثیتیں ہیں: (۱) تاریخی۔ (۲) شرعی۔
اپریل فول کی تاریخی حیثیت
اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس بارے میں موٴرخین کے بیانات مختلف ہیں۔
(۱) انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنارہی ہے؛ لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔ (انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا ۱/۴۹۶ بحوالہ ”ذکروفکر“ ص۶۷، مفتی تقی عثمانی مدظلہ)
(۲)بعض مصنّفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی ”وینس“ (Venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے، تو چوں کہ سال کا یہ پہلا دن ہوتا تھا؛ اس لیے خوشی میں اس دن کو جشن کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہارِ خوشی کے لیے آپس میں ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے، تو یہی چیز رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگئی۔
اپریل فول کی شرعی حیثیت
اس دن صریح جھوٹ بولنے کو لوگ جائز سمجھتے ہیں، جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کو بولا جائے تو گناہِ کبیرہ ہے اور اگر اس کو حلال اور جائز سمجھ کر بولا جائے تو اندیشہٴ کفر ہے۔ جھوٹ کی برائی اور مذمت کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم نے ”لعنت الله علی الکاذبین“ فرمایا ہے، گویا جو لوگ ’’اپریل فول‘‘ مناتے ہیں وہ قرآن میں ملعون ٹھہرائے گئے ہیں، اور ان پر خدا تعالیٰ کی، رسولوں کی، فرشتوں کی، انسانوں کی اور ساری مخلوق کی لعنت ہے۔
یہ رسم اس لیے بھی قابلِ ترک ہے کہ یہ مندرجہ ذیل کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
(۱) مشابہت کفار ویہود ونصاریٰ(۲)جھوٹا اور ناحق مذاق(۳)جھوٹ بولنا(۴)دھوکہ دینا(۵)دوسرے کواذیت پہنچانا
اب آئیں ان کی زرا کچھ تفصیل جانتے ہیں کہ احادیثِ مبارکہ میں ان گناہوں پر کتنی سخت وعیدیں آئی ہیں۔
(۱)کفار کی مشابہت
اپریل فول منانا گم راہ اور بے دین قوموں کی مشابہت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا اور مشرکین ومجوس کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے دسویں محرم کے ساتھ نویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا بھی حکم فرمایا۔ غرض کہ ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرقوموں کے طریقہٴ زندگی کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ اور ان الفاظ میں وعید فرمائی ہے کہ: ”من تشبّہ بقوم فہو منہم“ (مشکوٰة شریف ۲/۳۷۵) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریقے کو اختیار کرے گا اس کا شمار انہی میں ہوگا؛ مگر افسوس کہ غیرقوموں کا طریقہ ہی آج ہمیں پسند ہے۔
(۲)جھوٹا مزاق
اسلام نے خوش طبعی، مذاق کی اجازت دی ہے۔ کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرم کے ساتھ مذاق فرمایا ہےلیکن آپ کا مذاق جھوٹا اور تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہٴ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ
یا رسول اللّٰہ انّک تداعبنا، قال: انّی لا اقول الاّ حقًّا (ترمذی شریف:۲/۲۰)
ترجمہ: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تو ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ (میں دل لگی ضرور کرتا ہوں مگر) سچی اور حق بات کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مذاق میں دوسرے شخص کا جوتا غائب کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا، تو آپ نے ارشاد فرمایا:
لا تُرَوِّعُوْا الْمُسْلِمَ فَاِنَّ رَوْعَةَ المسلم ظلم عظیم (الترغیب والترہیب۳/۴۸۴)
ترجمہ: کسی مسلمیان کو مت ڈراؤ (نہ حقیقت میں نہ مذاق میں) کیونکہ کسی مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔
امام غزالی تحریر فرماتے ہیں کہ مزاح ومذاق پانچ شرطوں کے ساتھ جائز؛ بلکہ حسنِ اخلاق میں داخل ہے اور ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہوجائے تو پھر مذاق ممنوع اور ناجائز ہے۔
(۱) مذاق تھوڑا یعنی بقدرِ ضرورت ہو(۲) اس کا عادی نہ بن جائے(۳)حق اور سچی بات کہے(۴)اس سے وقار اور ہیبت کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو(۵)مذاق کسی کی اذیّت کا باعث نہ ہو (احیاء العلوم اردو ۳/۳۲۴-۳۲۶)
بعض لوگ دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق حدیث شریف میں ہے ” تباہی ہے ایسے شخص کے لیے جو دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے۔“ ( ابوداؤد:716/2، رقم الحدیث:4990)
(۳) جھوٹ بولنا
اس رسم ”اپریل فول“ میں سب سے بڑا گناہ جھوٹ ہے؛ جبکہ جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ رب کائنات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔
قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ارشاد مبارک ہے:
فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبین (آل عمران آیت ۶۱)
ترجمہ: پس لعنت کریں اللہ تعالیٰ کی ان لوگوں پر جو کہ جھوٹے ہیں۔
اسی طرح احادیث احادیث مبارکہ میں بھی مختلف انداز سے اس بدترین گناہ کی قباحت بیان کی گئی ہے۔
حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ
أیکون الموٴمن جَبانا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن بخیلا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن کذّابا؟ قال: لا․ (موطا امام مالک ص۳۸۸)
ترجمہ:کیا موٴمن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں، (مسلمان میں یہ کمزوری ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کہ کیامسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب عنایت فرمایا کہ نہیں، (یعنی ایمان کے ساتھ بے باکانہ جھوٹ کی عادت جمع نہیں ہوسکتی اور ایمان جھوٹ کو برداشت نہیں کرسکتا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا کَذَبَ العبدُ تَبَاعَدَ عنہ المَلَکُ مِیلاً من نَتَنٍ ما جاء بہ (ترمذی شریف۲/۱۹)
ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے فجر کی نماز کے بعد اپنا خواب لوگوں سے بیان فرمایاکہ آج رات میں نے یہ خواب دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارضِ مقدس کی طرف لے گئے تو وہاں دو آدمیوں کو دیکھا، ایک بیٹھا ہے اور دوسرا کھڑا ہوا ہے، کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے آدمی کے کلّے کو لوہے کی زنبور سے گدّی تک چیرتا ہے، پھر دوسرے کلّے کو اسی طرح کاٹتا ہے۔ اتنے میں پہلا کلاّ ٹھیک ہوجاتا ہے اور برابر اس کے ساتھ یہ عمل جاری ہے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ:
اَمَّا الَّذِیْ رَأَیْتَہ یُشَقُّ شِدْقُہ فَکَذَّابٌ یُحَدِّثُ بِالْکَذِبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْہُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْاٰفَاقَ فَیُصْنَعُ بِہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ․ (بخاری شریف ۱/۱۸۵-۲/۹۰۰-۲/۱۰۴۳)
ترجمہ: بہرحال وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے کلّے چیرے جارہے ہیں، وہ ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس سے نقل ہوکر دنیا جہاں میں پہنچ گیا؛ لہٰذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے گا۔
(۴) دھوکہ دہی کرنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا․(مسلم شریف ۱/۷۰) جو شخص ہم کو (مسلمانوں کو) دھوکا دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الموٴمنون بَعضُہم لِبَعْضٍ نَصَحَةٌ وَادُّون، وَانْ بَعُدَتْ منازلہم وَاَبْدَانُہُمْ وَالفَجَرَةُ بعضہم لبعضٍ غَشَشَةٌ مُتَخَاوِنُوْنَ وَاِنْ اقْتَرَبَتْ مَنَازِلُہُمْ وَاَبْدَالُہُمْ․ (الترغیب والترہیب ۲/۵۷۵)
ترجمہ: موٴمنین آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے مکانات اور جسم ایک دوسرے سے دور ہوں اور نافرمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے باز اور خائن ہوتے ہیں، اگر ان کے گھر اور جسم قریب قریب ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ بازی اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرنے والوں اور نافرمانوں کا عمل ہے، موٴمنین کا عمل تو ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنا ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایمان والے کو دوسروں کے ساتھ دھوکے کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔
(۵)دوسروں کو تکلیف پہنچانا
ہمارا مذہب اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک موٴمن کے ہاتھ وغیرہ سے پوری دنیا کے انسان (مسلم ہو یا غیرمسلم) محفوظ ہونے چاہئیں؛ بلکہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، بدترین اور شدید ترین گناہ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب ہے۔
مسلمانوں کو ایذا پہنچانا یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے، قرآنِ کریم میں ہے:
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا (احزاب 58)
ترجمہ: ’’بے شک جو لوگ ناحق ایذا پہنچاتے ہیں موٴمن مردوں اور عورتوں کو، انہوں نے بہتان اور بڑا گناہ اٹھایا‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَیَدِہ․ (بخاری شریف۱/۶، مسلم شریف۱/۴۸)
ترجمہ: کامل مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَارَّ مُوٴْمِنًا أوْ مَکَرَ بِہ (ترمذی شریف ۲/۱۵)
ترجمہ: وہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے جو کسی موٴمن کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ چال بازی کا معاملہ کرے۔
”اپریل فول“ بہت سارے بدترین گناہوں کا مجموعہ ہےجو لوگ اہلِ مغرب کی مشابہت میں اپریل فول مناتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ خدانخواستہ وہ قیامت کے دن یہود و نصاریٰ کی صف میں اٹھائے جائیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس لغو، بے ہودہ اور خلاف تہذیب مذاق اور وقارِ انسانیت کے منافی اس رسم سے دور رہیں، یہی اسلام کا مطالبہ بھی ہے اور یہی عقل وخرد کاتقاضابھی۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس طرح کی تمام برائیوں سے،رسومات سے محفوظ فرمائے اور دین کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
Post a Comment
Post a Comment