فضائل شبِ براء ت



فضائل شبِ براء ت
محمدداؤدالرحمن علی

رمضان المبارک کے آنے سے قبل ”شعبان المعظم“میں ہی فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا،نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بھی شریک فرماتے تھے۔
شعبان المعظم کے شروع ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی جس کا اندازہ ام الموٴمنین ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتی ہیں
ما رأیتہ في شھرٍ أکثر صیاماً منہ في شعبان کہ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا“(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: ۲۷۷۷)،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ”شعبان المعظم “میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں ”ومن المسنون صوم شعبان“(المجموع شرح المہذب:۶/۳۸۶)۔
مذکورہ حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنھا اور دیگر بہت سی احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلاة السلام کا یہ عمل اور امت کو ترغیب دینا استقبال رمضان کے لیے ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رمضان المبارک “کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ”شعبان المعظم“ کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے۔حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”اب خاص اس روزہ کی حکمت بھی سمجھیے، میرے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے پہلے نصف شعبان کا روزہ رمضان کے نمونہ کے لیے مسنون فرمایا ہے؛ تاکہ رمضان سے وحشت وہیبت نہ ہو کہ نہ معلوم روزہ کیسا ہو گا ؟اور کیا حال ہو گا؟ اس لیے آپ نے پندرہ شعبان کا روزہ مقرر فرمادیا کہ اس دن کا روزہ رکھ کر دیکھ لو ؛چونکہ یہ ایک ہی روزہ ہے اس لیے اس کی ہمت آسانی سے ہوجاتی ہے،جب وہ پورا ہو گیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بس رمضان کے روزے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس تاریخ میں رات کی عبادت بھی تراویح کا نمونہ ہے، اس سے تراویح کے لیے حوصلہ بڑھتا ہے کہ جب زیادہ رات تک جاگنا کچھ بھی معلوم نہ ہو اتو تراویح کے لیے ایک گھنٹہ زیادہ جاگنا کیا معلوم ہو گا ؟! بس یہ تو اعانت بالمثل علی المثل ہوئی۔(وعظ”الیسر مع العسر“بعنوان نظامِ شریعت:۶/۵۲۴،مکتبہ اشرف المعارف ملتان)“۔
اس رات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم افرا داور ان کی مختصر تفصیل:
(۱) کینہ،بغض :
کسی شخص پر غصہ پیدا ہو اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے تو اس کی وجہ سے دل میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے، اس کو ”کینہ “کہتے ہیں،اسی کا دوسرا نام ”بغض “بھی ہے،کینہ و بغض محض ایک گناہ یا عیب نہیں؛ بلکہ یہ اور بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہے،امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غصہ سے کینہ اور کینہ سے ”آٹھ“گناہ پیدا ہوتے ہیں ،(۱) حسد،(۲) شماتت،(۳) سلام کا جواب نہ دینا،(۴) حقارت کی نگاہ سے دیکھنا،(۵) غیبت ،جھو ٹ اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا،(۶) اس کے ساتھ مسخرا پن کرنا،(۷) موقع پاتے ہی اس کو ستانا،(۸) اس کے حقوق ادا نہ کرنا۔(کیمیائے سعادت،ص:۳۳۲) اس کے علاوہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ” کینہ ور کی بخشش نہیں کی جاتی“ (مشکاة المصابیح،ص؛۴۲۷)
(۲) شرک :
اللہ تعالی کی ذات یا صفات ِمختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے،شرک توحید کی ضد ہے،موجودہ دور میں شرک کی جتنی صورتیں مروج ہیں، ان سب سے بچنا ضروری ہے، مثلاً: غیر اللہ کو مختار کل ،نفع ونقصان کا مالک ، زندہ کرنے اورمارنے پر قادر، بیمار کرنے اور شفاء دینے پر قادر، روزی میں وسعت اور تنگی پیدا کرنے پر قادرسمجھنا،انبیاء کرام واولیاء عظام کے تقرب کے حصول کے لیے ان کے نام کی نذر ونیاز اور منت ماننا،ان کی قبروں پر سجدہ کرنا،ان کو عالم الغیب اورحاضرو ناظرسمجھنا سب شرک کی اقسام ہیں، پھر شرک کی دو قسمیں ہیں:شرک اکبر اور شرک اصغر،شرک اکبر کی تفصیل تو گذر چکی،شرک اصغر میں ریاکاری،بدشگونی اور غیر اللہ کے نام کی قسمیں کھاناوغیرہ شامل ہے،شرک کا انجام دوزخ بتایا گیا ہے
(۳) قتل ناحق:
بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کو ناحق قتل کرنا چاہے، وہ کافر ہی کیوں نہ ہوسخت گنا ہ ہے،اور کسی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی بدترین ہے ایسے شخص کے بارے میں قرآن پاک میں بہت سخت وعید آئی ہے،ارشاد باری تعالی ہے﴿ومن یقتل موٴمناً متعمداً فجزاوٴہ جھنم خالداً فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ وأعد لہ عذاباًعظیماً ﴾ (النساء:۹۳)․اس آیت میں اللہ تعالی نے قاتل کو ہمیشہ جہنم کی،اپنے غضب ،اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔
(۴) زنا:
کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے،جو عورت یا مرد اس بد ترین گناہ میں مبتلا ہو، اس کے لیے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اور اگر اس عمل ِبد کو پیشے کے طور پر کیا جائے ”جیسے موجودہ دور میں اس کا رواج عام ہو چکا ہے“تو یہ دوہرا گناہ ہے اور ایسی کمائی بھی حرام ہے۔”شب ِمعراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے(بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں“․
(۵) قطع رحمی:
اپنے اعزہ واقرباء اور اپنے متعلقین کے حقوق ِضروریہ ادا نہ کرنا قطع رحمی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”قطع رحمی کرنے والا(قانوناً،بغیر سزا کے)جنت میں نہیں جائے گا“ (بخاری ومسلم )
(۶) ازار”شلوار،پاجامہ“ٹخنوں سے نیچے لٹکانا:
مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار، تہبند،پاجامہ، پینٹ ، کرتا یاچوغہ وغیرہ لٹکاناحرام اور گناہ کبیرہ ہے،ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ:”ٹخنوں سے نیچے جو تہبند(پاجامہ وغیرہ) ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے“۔(مشکاة المصابیح:۱/۲۷۳،قدیمی)
(۷) والدین کی نافرمانی:
والدین کی نافرمانی بہت سخت گناہ ہے، کئی احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیںآ ئی ہیں،ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”احسان جتلانے والا،والدین کا نافرمان ، اور شراب پینے والا جنت میں داخل نہ ہو گا“(نسائی،دارمی)۔قرآن پاک میں تو والدین کے سامنے ”اُف“ تک کہنے سے منع کیا گیا ہے
(۸) شراب نوشی:
شراب نوشی کی ایک وعید پیچھے گذر چکی ، یہ صرف ایک گناہ کبیرہ ہی نہیں؛ بلکہ یہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے،اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے،ایک حدیث پاک میں ہے کہ:”میری امت میں کچھ لوگ شراب پئیں گے،اور شراب کو دوسرا نام دیں گے، اوران کے سامنے ناچنے اور گانے والی عورتیں ہوں گی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ زمین میں دھنسا دیں گے یا ان کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے“۔لہذا شراب یا دیگر نشہ پیدا کرنے والی سب چیزیں مثلا:وہسکی ، ہیروئن،بھنگ،وغیرہ سب حرام ہیں۔
شب براء ت کی رسومات اور بدعات:
اس رات میں حد سے زیادہ عبادت کرنا،مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا، مخصوص قسم کے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنا، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نوافل وتسبیح تراویح کی جماعت کروانا،اسپیکر پر نعت خوانی وغیرہ کرنا،ہوٹلوں اور بازاروں میں گھومنا،حلوہ پکانے کو ضروری سمجھنا،خاص اس رات میں ایصال ثواب کو ضروری سمجھنا، قبرستان میں چراغ جلانا،اس رات سے ایک دن پہلے عرفہ کے نام سے ایک رسم، اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ، فوت شدہ شخص کے گھر جانے کو ضروری سمجھنا،کپڑوں کا لین دین، بیری کے پتوں سے غسل کرنا،گھروں میں چراغاں کرنا،گھروں اور مساجد کو سجانا،اور ان سب سے بڑھ کر اس رات میں آتش بازی کرنا ،مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں، ان کا کوئی ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین سے نہیں ملتا؛ اس لیے ان تما م بدعات ورسومات کا ترک اور معاشرے سے ان کو مٹانے کی کوشش کرنا ہر ہر مسلمان پر بقدرِ وسعت فرض ہے۔
شب براء ت میں کرنے کے کام:
آخر میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں ؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے؛تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے:
۱- نماز عشاء اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔
۲- اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو ،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا،بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔
۳- اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنااور ہر قسم کی رسومات اور بدعات سے اجتناب کرنا۔
۴- اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعاء کرنا۔
۵- بقدر وسعت ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔
۶- اگر بآسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا۔
واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب براء ت کا لازمی حصہ نہیں؛بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ہے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام و سنت نبویﷺ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے،اور سیدھے راستے پر چلائے۔آمین ثم آمین


 

Post a Comment