خیابان امین پارک لاہور
تحریر:محمدداؤدالرحمن علی
دوپہر کا وقت تھا ہمارے دوست ہمارے ہاں آوارد ہوئےہم نے خوش دلی سے جناب کا استقبال کیا کھانے کا وقت تھا ہمیں بھوک بھی زوروں کی لگی تھی ہم نے اپنے دوست سے پوچھا کھاناتناول فرمائینگے؟کہنے لگے میں زراہ نہاکر تازہ دم ہولوں پھر دیکھتے ہیں۔جناب نہاکر تازہ دم ہوئے تو کہنے لگے کام ہے زرا چلو میرے ساتھ ہم نے بھوک کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے کہا جناب کھانا کھالیتے ہیں پھر چلتے ہیں کیونکہ ہم نے صبح ناشتہ نہیں کیا تھا اس لیے بھوک بہت لگی ہے کھانا بھی تیار ہے کھاکر چلتے ہیں ۔ہمارے دوست نے ہماری بات کو یکسر رد کرتے ہوئے ساتھ چلنے کا حکم صادر کردیا اور باہر کی طرف چلدیے۔اب ہم بچارے کیا کرتے جناب کاحکم سن کربھوک کی شدت کے ساتھ جناب کے ساتھ روانہ ہوئے۔راستے میں ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی،تقریبا آدھ پونہ گھنٹہ کی مسافت طے کرنے کے بعد جناب نے ایک گھر کے سامنے اپنی سواری کی بریک لگائی اور گھر کی بیل بجائی دروازہ کھلا اندر جانے کی اجازت لی اور اندر کی طرف روانہ ہوگئے ہم سوچ رہے تھے اوپر سے بھوک اور جناب نے یہاں لاکر کھڑا کردیااب پتہ نہیں کتنی دیر لگائینگے اس سے پہلے ہماری سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا کہ ہماری سماعتوں سے جناب کی آواز ٹکرائی اب یہاں کھڑے رہو گئے یا اندر بھی آنے کی زحمت فرمائینگے ہم نے سوچ کا دائرہ توڑتے ہوئے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے جیسے ہی ہم مہمان خانہ میں پہنچے تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ جناب کے بڑے بھائی اور ایک دو دوست بھی موجود تھے خیر سلام دعا کے بعد ہم بیٹھ گئے تو ہمیں بوتل پیش کی گئی اور ہم نے اپنے دوست کی طرف گھورا اور اشارہ دیا بھوک شدید ہے اور تم بوتل کی تلقین کررہے ہو جناب نے بھی کہ دیا بوتل تو پینی پڑے گی نہ چاہتے ہوئے بھی پی گیاکچھ دیر کے بعد ہم نے دوست صاحب کوکہا کہ آصف یار جو کام ہے کرو اور چلتے ہیں کہنے لگا یار صبر کرو صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہےہم کڑوا گھونٹ پی کر رہ گئے۔کچھ ہی دیر مزید گزری تھی کہ ہمارے سامنے کی ٹیبل کو لوازمات سے بھر دیا گیا اور ہمیں ٹیبل کی طرف آنے کی دعوت ملی تو ہم بھی مسکراتے ہوئے ٹیبل کے ساتھ کرسی پر براجمان ہوگئے جب نظر دوڑائی تو سارے ہمارے پسندیدہ پکوان بنے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر بھوک اور بڑھ گئی کھانا خوب سیرہو کرکھایا اور آصف کا شکریہ ادا کرتے ساتھ کہا سیدھا کہنا تھا آج تمہیں اپنا پسندیدہ کھانا کھلاؤں گا میرا بلڈ پریشر ہائی کرنے کی کیا ضرورت تھی کہنے لگا میں دیکھنا چاہتا تھا تم کتنا برداشت کرسکتے ہو میں نے کہا ہوجاتی نا بھوکی انتہاء پھر بتاتے کتنا برداشت ہے۔خیر کھانا کھانے کے بعد جب باہر آئے تو میں نے دوستوں سے کہا یہاں قریب پارک ہے آؤ وہاں چلتے ہیں سب نے مصروفیات کی وجہ سےاجازت چاہی تو آصف اور میں پارک کی طرف چلدیے۔کچھ سفر طے کرنے کے بعد آصف نے کہا کون سی پارک جانا ہے میں نے پارک کا نام لیا تو ساتھ ہی آصف نے ایک معقول مشورہ دیاکہ جہاں آپ کہ رہے ہیں وہاں جانے کا فائدہ نہیں کیونکہ پارک بند ہونے کا وقت قریب ہے،جاتے جاتے وقت پورا ہوجانا ہے اس طرح وہاں جانے کا فائدہ نہیں بلکہ اس وقت ہم جہاں کھڑے ہیں یہاں سے کچھ مسافت پر خیابان امین پارک ہے وہاں چلتے ہیں ۔مجھے آصف کا مشورہ معقول لگا اور ہم خیابان امین پارک کی طرف چلدیے۔
خیابان امین لاہور کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جو بحریہ ٹاؤن لاہور کے قریب واقع ہے ۔اسی سوسائٹی کے اندر ایک خوبصورت پارک بنایا گیا ہے۔تقریبا دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم خیابان امین پارک پہنچ چکے تھے یہ ایک وسیع و عریض پارک ہے ۔ پارک کے مین پوائنٹ سے جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے ایک خوبصورت شاہکار نے ہمارا استقبال کیا ۔گول دائرے میں ستون بنائے گئے تھے اور ستونوں کے نیچےمختلف نقشونگار کیا گیا تھا جو ستون کو اور حسین بنا رہے تھے درمیان میں ایک فوارہ لگایا گیا تھا جو منظر کو اور حسین بنا رہا تھا۔
Post a Comment
Post a Comment